بدھ، 30 جنوری، 2013

فعل ماضی بعید مجہول

پچھلے ہفتے ہم نے الفعل الماضي البعيد کو معروف حالت میں پڑھا تھا۔ آج ہم اسے مجہول حالت میں پڑھیں گے۔ جس طرح ہم نے پچھلے اسباق میں فعل ماضی اور الفعل الماضي القريب کو معروف سے مجہول میں تبدیل کیا تھا، اُسی قاعدے کے تحت ہم ماضی بعید کو بھی معروف سے مجہول میں تبدیل کریں گے۔ مثلاً:

  • فعل ماضی بعید معروف: كانَ جَلَسَ (وہ بیٹھا تھا)
  • فعل ماضی بعید مجہول: كانَ جُلِسَ (وہ بٹھایا گیا تھا)

میں نے فعل ماضی بعید مجہول کی چند گردانیں بنائی ہیں جو ذیل میں بھی پڑھی جا سکتی ہیں اور پی۔ ڈی۔ ایف میں بھی۔ ان گردانوں کو صحیح طرح دیکھنے کے لیے آپ کے کمپیوٹر میں مندرجہ ذیل تین فانٹ ضرور نصب ہونے چاہئیں:

منگل، 29 جنوری، 2013

فعل ماضی قریب مجہول

کالج کی پریزنٹیشن اور اسائنمنٹ وغیرہ کی مصروفیات کی وجہ سے میں اسباق چڑھانا بھول گیا حالانکہ یہ تمام چیزیں میرے کمپیوٹر میں موجود تھیں۔

پچھلے ہفتے ہم نے الفعل الماضي القريب کو معروف حالت میں پڑھا تھا۔ آج ہم اسے مجہول حالت میں پڑھیں۔ جس طرح ہم نے پچھلے سبق میں فعل ماضی کو فعل ماضی مجہول میں تبدیل کیا تھا، اُسی قاعدے کے مطابق ہم فعل ماضی قریب معروف کو فعل ماضی قریب مجہول میں تبدیل کر سکتے ہیں۔  مثلاً:

جمعہ، 25 جنوری، 2013

الفعل الماضي المجهول

چند روز قبل ہم فعل ماضی کے بارے میں پڑھ چکے ہیں کہ یہ ایسا فعل ہے کہ جس میں گزرا ہوا زمانہ پایا جائے۔ فعل ماضی معروف ایسا فعل ماضی ہوتا ہے جس میں فاعل کا علم ہو جبکہ فعل ماضی مجہول ایسا فعل ماضی ہوتا ہے جس میں فاعل نامعلوم ہو۔

  • فعل ماضی معروف: قَتَلَ (اُس نے قتل کیا)
  • فعل ماضی مجہول: قُتِلَ (وہ قتل ہوا)

فعل ماضی معروف میں فعل کے پہلے اور آخری حرف پر زبر ہوتی ہے اور دوسرے حرف پر کوئی بھی اعراب ہو سکتا ہے جبکہ فعل ماضی مجہول میں ہمیشہ پہلے حرف پر پیش (یا ضمہ یا رفع)، دوسرے حرف پر زیر (یا کسرہ یا جر) اور تیسرے حرف پر زبر (یا فتح یا نصب) آتی ہے۔ یعنی فَعَلَ جب فعل ماضی مجہول میں تبدیل ہو گا تو فُعِلَ بن جائے گا۔

میں نے فعل ماضی مطلق مجہول کی چند گردانیں بنائی ہیں جو ذیل میں بھی پڑھی جا سکتی ہیں اور پی۔ ڈی۔ ایف میں بھی۔ ان گردانوں کو صحیح طرح دیکھنے کے لیے آپ کے کمپیوٹر میں مندرجہ ذیل تین فانٹ ضرور نصب ہونے چاہئیں:

جمعرات، 24 جنوری، 2013

الفعل الماضي البعيد

ہم پڑھ چکے ہیں کہ فعل ماضی ایسے فعل کو کہتے ہیں جس میں گزرا ہوا زمانہ پایا جائے اور فعل ماضی قریب ایسے فعل کو کہتے ہیں جس میں قریب کا گزرا ہوا زمانہ پایا جائے۔ اسی طرح فعل ماضی بعید ایسے فعل کو کہتے ہیں جس میں دور کا گزرا ہوا زمانہ پایا جائے یعنی ایسا فعل جس کو ختم ہوئے کافی وقت گزر چکا ہو۔ مثلاً: میں نے لکھا تھا۔

عربی میں فعل ماضی کو فعل ماضی بعید بنانے کے لیے فعل سے قبل کان کا لفظ لگایا جاتا ہے۔ فعل ماضی قریب میں تو قد ہر صیغے میں اپنی شکل برقرار رکھتا ہے لیکن فعل ماضی بعید میں کان ہر صیغے کے لحاظ سے اپنی شکل تبدیل کرتا ہے۔ مثلاً:

منگل، 22 جنوری، 2013

الفعل الماضي القريب المعروف

بجائے اس کے کہ ہم فعل ماضی مطلق معروف کے بعد مجہول پڑھیں اور پھر قریب معروف اور قریب مجہول پڑھیں اور پھر اسی طرح بعید پڑھیں، ہم پہلے تمام افعالِ ماضی معروف پڑھیں گے تاکہ ہمیں یاد کرنے میں آسانی رہے۔ ہمارے اُستادِ محترم نے بھی ہمیں اسی ترتیب سے فعل کی گردانیں یاد کروائی تھیں۔

۲۹ نومبر ۲۰۱۲ کو اُستادِ محترم نے ہمیں بتایا کہ فعل ماضی قریب ایسے فعل کو کہتے ہیں کہ جس میں قریب کا گزرا ہوا زمانہ پایا جائے۔ فعل ماضی مطلق کو فعل ماضی قریب میں تبدیل کرنا بہت آسان ہے۔ اس کے لیے ہمیں ہر صیغے سے قبل صرف ’’قَد‘‘ کا اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً:

پیر، 21 جنوری، 2013

الفعل الماضي المعروف

دو یوم قبل ہم نے فعل ماضی معروف کی، چند مختلف فعلوں کے ساتھ، گردانیں اس بلاگ پر شائع کیں۔ آج ہم انہیں دھرائیں گے۔

ذَهَبَ (وہ ایک مرد گیا)

ذَهَبتَ (تو ایک مرد گیا)

ذَهَبتُ لاهور (میں لاہور گیا)

۲۹ نومبر کو اُستادِ محترم نے ہمیں مندرجہ ذیل تین فعل لکھ کر دیئے اور ہم سے پوچھا کہ یہ کس صیغے سے ہیں۔

ہفتہ، 19 جنوری، 2013

فعل ماضی مطلق معروف

ہم پچھلے اسباق میں پڑھ چکے ہیں کہ فعل ایسے لفظ کو کہتے ہیں جس کا اپنا مستقل معنی ہو اور اُس میں کوئی زمانہ پایا جائے۔ مزید ہم فعلوں کی اقسام کے بارے میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ اب ہم ان تمام قسموں کو تفصیل میں پڑھیں گے۔

سب سے پہلے ہم فعل ماضی مطلق معروف پڑھیں گے۔ فعل ماضی ایسے فعل کو کہتے ہیں جس میں گزرا ہوا زمانہ پایا جائے۔ مطلق کسی آزاد چیز کو کہتے ہیں۔ یعنی فعل ماضی مطلق ایسا فعل ماضی ہے جس میں زمانے کی قربت اور دوری کا اندازہ نہ ہو۔ اس کا ترجمہ یوں ہو گا: ’’اُس نے لکھا‘‘۔ اس میں صرف اس چیز کا پتا چلتا ہے کہ یہ عمل ماضی میں انجام پایا لیکن اس چیز کا پتا نہیں چلتا کہ یہ عمل کب اختتام پذیر ہوا۔ ہم پڑھ چکے ہیں کہ فعل معروف ایسا فعل ہے جس میں فاعل کا علم ہو۔ یعنی فعل ماضی مطلق معروف ایسا فعل ہے جس میں گزرا ہوا زمانہ، بغیر قیدِ دوری و نزدیکی، ہو اور فاعل کا علم ہو۔

۲۰ اکتوبر ۲۰۱۲ کو ہم نے اسلامیات لازمی کی جماعت میں الفعل الماضي کی گردان پڑھی اور ۲۵ اکتوبر کو سنائی۔ اس دن کے بعد اسلامیات لازمی میں گرامر نہیں پڑھائی گئی کیونکہ یونیورسٹی نے نصاب بدل دیا۔ عربی کی جماعت میں ہم نے فعل ماضی کو ۱۷ نومبر سے شروع کیا اور پھر ۲۲ نومبر کو وہیں سے آگے بڑھایا۔ فعل کی گردانوں میں بھی ضمائر کی گردانوں کی طرح چودہ صیغے ہوتے ہیں۔ فعل ماضی معروف کی چند گردانیں مندرجہ ذیل ہیں۔

جمعرات، 17 جنوری، 2013

خلاصۂ اسباق (۱ تا ۶)

آج کالج میں عربی کی پریزنٹیشن تھی۔ بہر حال‘ استادِ محترم کو یونیورسٹی جانا پڑ گیا اور ہماری پریزنٹیشن نہ ہو سکی۔ میں نے اس کی تیاری کے لیے ایک صفحہ تیار کیا تھا جس میں ہماری کتاب کے پہلے ۶ اسباق کا خلاصہ ہے۔ اپنے قارئین کے لیے وہ صفحہ نیچے لگا رہا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ یہ صفحہ آپ کے لیے کافی مفید ہو گا۔ اس کے آخر میں چند روابط بھی درج ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو عربی سیکھنے کے لیے ان روابط سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔

بدھ، 16 جنوری، 2013

الحروف الجارة

۱۵ نومبر کو ہم نے حروفِ جارۃ پڑھے۔ حروفِ جارۃ ایسے حروف کو کہتے ہیں جو اپنے بعد آنے والے اسموں کو مجرور کر دیں۔ حروفِ جارہ کے بعد آنے والے اسم کے آخری حرف پر زیر آ جائے گی۔ لیکن چند اسم ایسے ہیں کہ جو کبھی مجرور نہیں ہوتے۔ مثلاً: ابراہیم، عائشہ وغیرہ۔
حروفِ جارہ کی کل تعداد ۱۷ بتائی جاتی ہے۔ حروفِ جارہ مندرجہ ذیل شعر میں جمع کر دیئے گئے ہیں:

منگل، 15 جنوری، 2013

تنوین

عربی میں عموماً ہر اسم کے آخری حرف پر تنوین ہوتی ہے لیکن اگر تنوین والے لفظ پر ال داخل ہو تو تنوین گر جاتی ہے اور صرف ایک ہی حرکت باقی رہ جاتی ہے، یعنی دو پیش کی بجائے ایک پیش، دو زبر کی بجائے ایک زبر اور دو زیر کی بجائے ایک زیر۔ مثلاً: رَجُلٌ سے اَلرَّجُلُ۔

اسمِ معرفہ پر عموماً الف لام داخل نہیں ہوتا یعنی باكستان کبھی بھی الباكستان نہیں ہو سکتا۔ البتہ جن ناموں پر شروع سے ہی ال ہو وہ باقی رہے گا۔ مثلاً: الكوفة، البصرة، العراق وغیرہ۔

اسمِ نکرہ بھی عموماً ال کے بغیر ہوتے ہیں مگر ان پر الف لام داخل ہو سکتا ہے۔ ال داخل ہونے کے بعد وہ اسم نکرہ کی بجائے معرفہ میں تبدیل ہو جائے گا اور اُسے معرف باللام کہیں گے۔ اس کی مثال سب سے پہلے دی گئی۔ مرکبِ اضافی میں مضاف ال اور تنوين (دونوں) کے بغیر آتا ہے۔

پیر، 14 جنوری، 2013

المركب التوصيفي کی مثالیں

۲ نومبر اور ۸ نومبر کو ہم نے المرکب التوصیفی کی مثالیں پڑھیں۔

سب سے پہلے استادِ محترم نے تختۂ سبز پر رجل المريض لکھا اور پوچھا کہ کیا یہ مرکبِ توصیفی ہے؟ ہم نے بتایا کہ یہ مرکبِ توصیفی نہیں۔ ہم پچھلے سبق میں پڑھ چکے ہیں:

اگر موصوف معرّف باللام ہو گا تو صفت بھی معرف باللام ہو گی اور اگر موصوف ال کے بغیر ہو گا تو صفت بھی ال کے بغیر ہو گی۔

پھر استادِ محترم نے رجل کے ساتھ بھی ال شامل کر دیا مگر ساتھ ہی دونوں اسموں کے آخری حروف پر اعراب بھی لگا دیا۔ انہوں نے لکھا: الرجلَ المريضِ

ہم نے بتایا کہ یہ بھی المركب التوصيفي نہیں ہے۔ ہم پچھلے سبق میں پڑھ چکے ہیں:

ہفتہ، 12 جنوری، 2013

المركب الإضافي کی مثالیں

آج ہم مرکبِ اضافی کی چند مثالیں دیکھیں گے تاکہ ہمیں مرکبِ اضافی کی صحیح طرح پہچان ہو جائے۔

البستانُ جميلٌ مرکبِ اضافی نہیں ہے۔ ہم پچھلے دن پڑھ چکے ہیں کہ پہلا اسم (یعنی مضاف) ال کے بغیر ہوتا ہے جبکہ دوسرا اسم (یعنی مضاف الیہ) ال کے ساتھ ہوتا ہے یا اسمِ معرفہ ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا مثال میں ایک تو بستان کے ساتھ ال آ گیا دوسرا جمیل اسمِ نکرہ ہونے کے باوجود ال کے بغیر آیا۔ ان نشانیوں کی بنا پر ہم آسانی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مندرجہ بالا مثال مرکبِ اضافی نہیں ہے۔ ایسا فقرہ جملۂ مفیدہ یا مرکبِ مفید کہلاتا ہے۔ مندرجہ بالا فقرے کا مطلب ہے باغ خوبصور ہے۔

ساعةُ بنتٍ بھی مرکبِ اضافی نہیں۔ اگرچہ اس میں پہلا اسم معرف باللام (یعنی ال کے ساتھ معرفہ بنایا گیا) نہیں ہے مگر اس میں دوسرا اسم بھی اسمِ نکرہ ہونے کے باوجود معرف باللام نہیں۔ تاہم یہ بھی مرکبِ اضافی نہیں ہے لیکن اس کو بآسانی مرکبِ اضافی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ جب ہم دوسرے اسم سے پہلے ال شامل کر دیں تو مندرجہ بالا مثال ساعةُ البنتِ بن کر مرکبِ اضافی بن جاتی ہے۔ اس طرح اس کا مطلب ہو گا لڑکی کی گھڑی۔

مرکبِ اضافی کی چھ مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:

جمعہ، 11 جنوری، 2013

مرکبِ اضافی

الفاظ کے مجموعے کو مرکب کہتے ہیں۔ المركب الإضافي ایسا مرکب ہے کہ جس میں ایک لفظ کی نسبت دوسرے لفظ کے ساتھ کی جائے کہ اس سے اضافت ظاہر ہوتی ہو۔

۲۵ اکتوبر ۲۰۱۲ کو استادِ محترم نے مرکبِ اضافی کی مندرجہ ذیل پانچ نشانیاں بتائیں۔

جمعرات، 10 جنوری، 2013

مرکبات

۲۰ اکتوبر ۲۰۱۲ کو ہمیں دہرائی کے بعد ہمیں مرکبات پڑھائے گئے۔ الفاظ کے مجموعے کو مرکب کہتے ہیں۔ عربی زبان میں دو طرح کے مرکبات ہوتے ہیں:

  1. مرکبِ تام
  2. مرکبِ ناقص

مرکبِ تام ایسے مرکب کو کہتے ہیں کہ جو پورا معنی پہنچا دے۔ اسے مرکبِ مفید یا جملہ بھی کہتے ہیں۔ مثلاً:

بدھ، 9 جنوری، 2013

ضمیرِ منفصلہ

۱۰ نومبر کو ہم نے الضمائر المنفصلة پڑھیں۔ نیچے دیئے گئے جدول کو صحیح طرح دیکھنے کے لیے مندرجہ ذیل فونٹ اپنے کمپیوٹر میں نصب کر کے اس صفحہ کو دوبارہ کھولیں۔ آپ اس سبق کی پی۔ ڈی۔ ایف بھی محفوظ کر سکتے ہیں۔

  1. Muhammadi Bold Font (محمدی بولڈ فونٹ) جس کا دوسرا نام Muhammadi Quranic Bold (محمدی قرآنک بولڈ) ہے۔ یہ فونٹ صرف جدول کے عنوان کے لیے استعمال ہوا۔
  2. Traditional Arabic Bold (ٹریدیشنل ایریبک بولڈ) جس کا دوسرا نام TradArabicBold (ٹریڈ ایریبک بولڈ) ہے۔

پہلے جدول میں متصل ضمیروں کے ۱۴ صیغے ہیں جبکہ دوسرے جدول میں ان ضمیروں کو اسم طالب کے ساتھ جوڑ کر مثالیں دی گئی ہیں۔

غور کیجئے: ہر صیغے میں اسم طالب بدل رہا ہے۔ اگر ضمیر کا صیغہ واحد ہے تو طالب کو بھی واحد ہی لکھا جائے گا۔ اسی طرح، اگر ضمیر کا صیغہ تثنیہ ہے تو اسم بھی تثنیہ ہو گا اور جمع ضمیر کے ساتھ اسم بھی جمع ہو گا۔

نیچے دیئے گئے جدول میں جمع مذکر کے صیغوں میں طالبون اور طُلّاب دونوں استعمال کیے گئے ہیں۔ یہ دونوں طالب کی جمع ہیں اور ان میں سے کوئی ابھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔


الضمائر المنفصلة

منگل، 8 جنوری، 2013

الفاظ و معانی

العربية

اردو

هذا كتابي

یہ میری کتاب ہے۔

ذلك قلمك

وہ تمہارا قلم ہے۔

ما تلك؟

وہ کیا ہے؟

تلك كراستها

وہ اس (ایک عورت) کی نوٹ بک ہے۔

اسمي شاه رخ

میرا نام شاہ رُخ ہے۔

هذه كراسة

یہ نوٹ بک ہے۔

هذه مدرستنا

یہ ہمارا اسکول ہے۔

ذلك بيتك

وہ تمہارا گھر ہے۔

هذا علم

یہ جھنڈا ہے۔

هذه شجرتك

یہ تمہارا درخت ہے۔

ذلك قلم

وہ قلم ہے۔

تلك دراجة

وہ سائیکل ہے۔

تلك مروحتك

وہ تمہارا پنکھا ہے۔

هذا سقفها

یہ اس (ایک عورت) کی چھت ہے۔

تلك صورته

اس (ایک مرد) کی تصویر۔

هذا مكتبي

یہ میری میز ہے۔

پیر، 7 جنوری، 2013

سوالات و جوابات

هل هذا كتاب؟

کیا یہ کتاب ہے؟

نعم. هذا كتاب.

ہاں۔ یہ کتاب ہے۔

هل هذه حديقة؟

کیا یہ باغ ہے؟

نعم. هذه حديقة.

ہاں۔ یہ باغ ہے۔

هل ذالك قلم؟

کیا وہ قلم ہے؟

نعم. ذالك قلم.

ہاں، وہ قلم ہے۔

هل تلك ساعة؟

کیا وہ گھڑی ہے؟

نعم. تــلك ساعة.

ہاں، وہ گھڑی ہے۔

هل ذالك كرسي أو قلم؟

کیا وہ کرسی ہے یا قلم؟

ذالك كرسي.

وہ کرسی ہے۔

هل تلك مدرسة أو حديقة؟

کیا وہ اسکول ہے یا باغ؟

تلك مدرسة.

وہ اسکول ہے۔

اتوار، 6 جنوری، 2013

الفاظ و معانی

عربی

اردو

هذا كرسي

یہ کرسی ہے۔

هذا باب

یہ دروازہ ہے۔

هذا مكتب

یہ میز ہے۔

هذا منزل

یہ عمارت ہے۔

هذا كتاب

یہ کتاب ہے۔

هذا جدار

یہ دیوار ہے۔

هذا سقف

یہ چھت ہے۔

هذه مدرسة

یہ اسکول (مدرسہ) ہے۔

هذه ساعة

یہ گھڑی ہے۔

هذه ورقة

یہ صفحہ (ورقہ) ہے۔

هذا قلم

یہ قلم ہے۔

هذه مروحة

یہ پنکھا ہے۔

هذه سيارة

یہ گاڑی ہے۔

هذه صورة

یہ تصویر ہے۔

هذه حديقة

یہ باغ ہے۔

ہفتہ، 5 جنوری، 2013

ضمیرِ متصلہ

۱۹ اکتوبر کو ہم نے الضمائر المنفصلة پڑھیں۔ نیچے دیئے گئے جدول کو صحیح طرح دیکھنے کے لیے مندرجہ ذیل فونٹ اپنے کمپیوٹر میں نصب کر کے اس صفحہ کو دوبارہ کھولیں۔ آپ اس سبق کی پی۔ ڈی۔ ایف بھی محفوظ کر سکتے ہیں۔

  1. Muhammadi Bold Font (محمدی بولڈ فونٹ) جس کا دوسرا نام Muhammadi Quranic Bold (محمدی قرآنک بولڈ) ہے۔ یہ فونٹ صرف جدول کے عنوان کے لیے استعمال ہوا۔
  2. Traditional Arabic Bold (ٹریدیشنل ایریبک بولڈ) جس کا دوسرا نام TradArabicBold (ٹریڈ ایریبک بولڈ) ہے۔

پہلے جدول میں متصل ضمیروں کے ۱۴ صیغے ہیں جبکہ دوسرے جدول میں ان ضمیروں اسم کتاب کے ساتھ جوڑ کر مثالیں دی گئی ہیں۔


الضمائر المتصلة

جمعہ، 4 جنوری، 2013

ضمیریں

۱۹ اکتوبر کو ہمیں ضمیروں کے متعلق پڑھایا گیا۔ عربی زبان میں ضمير (ضمیر) کی جمع الضمائر ہے۔ عربی میں دو طرح کی ضمیریں ہیں:

  1. الضمائر المتصلة (ضمیرِ متصل)
  2. الضمائر المنفصلة (ضمیرِ منفصل)

الضمائر المتصلة ایسی ضمیریں ہیں جو اسم یا فعل کے ساتھ متصل یعنی جڑی ہوتی ہیں جبکہ الضمائر المنفصلة ایسی ضمیریں ہیں جو اسم یا فعل سے فاصلہ پر ہوتی ہیں یعنی اسم یا فعل سے الگ ہوتی ہیں۔ متصل ضمیروں میں ه، هم وغیرہ شامل ہیں۔ مثلاً: كتابهٗ یعنی اُس کی کتاب۔ جبکہ منفصل ضمیروں میں هو، أنت وغیرہ شامل ہیں۔

جمعرات، 3 جنوری، 2013

تذکیر و تانیث

باعتبارِ جنس، اسم دو قسم کے ہوتے ہیں:

  1. مذکر (مو ۔ ذَك ۔ کر)
  2. مؤنث (مو ۔ اَن ۔ نَس)

مذکر وہ اسم ہے جس میں علاماتِ تانیث نہ پائی جائیں۔ مثلاً: ولد، حصان وغیرہ۔

تانیث کی تین علامات ہیں:

  1. گول ت (ۃ)
  2. الف مقصورہ (یٰ)
  3. الف ممدودہ ( آء)

عربی میں مؤنث کی دو اقسام ہیں:

بدھ، 2 جنوری، 2013

الفاظ و معانی

عربی

اردو

قَلَمٌ

قلم

كِـتابٌ

کتاب

مَدْرَسَةٌ

اسکول

بَابٌ

دروازہ

نَافِذَةٌ

کھڑکی

سَاعَةٌ

گھڑی

سَبُّوْرَةٌ

تختۂ سیاہ

وَرَقَةٌ

ورقہ (کاغذ)

عَلَمٌ

جھنڈا

حَدِيْقَةٌ

باغ

شُبَّاكٌ

کھڑکی

ما؟

کیا؟ What؟

هل؟

کیا؟ Is؟ Are؟

نعم

ہاں

لا

نہیں

بل

بلکہ

هٰذَا

یہ (مذکر)

هٰذِهٖ

یہ (مؤنث)

ذٰلك

وہ (مذکر)

تلك

وہ (مؤنث)

منگل، 1 جنوری، 2013

اقسامِ جملہ

۱۹ اکتوبر کو ہمیں جملہ کی دو اقسام پڑھائی گئیں:

  1. الجملة الفعلية
  2. الجملة الإسمية

جملۂ فعلیہ ایسا جملہ ہے جو فعل سے شروع ہو۔ مثلاً: ذهب الله بنورهم۔

جملۂ اسمیہ ایسے جملے کو کہتے ہیں جس کا آغاز اسم سے ہو۔ مثلاً: البستان جميل۔ یہ جملہ مبتداء و خبر بھی ہے۔