جمعہ، 1 فروری، 2013

الجمع

ہر زُبان میں واحد اور جمع موجود ہوتے ہیں۔ جب کسی چیز کی تعداد ایک سے بڑھ جائے تو وہ جمع کے صیغے میں چلی جاتی ہے۔ لیکن عربی زُبان میں واحد اور جمع کے درمیان ایک اور صیغہ بھی ہے جسے تثنية کہتے ہیں۔ ۲ نومبر کو استادِ محترم نے ہمیں بتایا کہ واحد ایک شخص یا چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے، تثنیہ دو اشخاص یا دو چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ جمع دو سے زیادہ اشخاص یا دو سے زیادہ چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

۱۶ نومبر کو استادِ محترم نے ہمیں بتایا کہ جمع کی دو اقسام ہیں:

  1. جمع سالم
  2. جمع مکسر (یا مکسور)

جمع سالم وہ ہے کہ جس میں واحد کا وزن باقی رہے اور جو بھی زیادتی ہو وہ آخر میں ہو۔ مثلاً: مسلم سے مسلمون۔ جبکہ جمع مکسر وہ ہے کہ جس میں واحد کا وزن برقرار نہ رہے اور اصل لفظ میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ہو جائے۔ مثلاً: رجل سے رجال، قلم سے اقلام وغیرہ۔

۲ نومبر کو استادِ محترم نے ہمیں بتایا کہ عربی میں اعراب کے لحاظ سے جمع کی تین مندرجہ ذیل حالتیں ہوتی ہیں:

  1. رفعی (اگر لفظ مرفوع ہوتا ہو یعنی اس کے آخری حرف پر پیش ہو)
  2. نصبی (اگر لفظ منصوب ہو یعنی اس کے آخری حرف پر زبر ہو)
  3. جری (اگر لفظ مجرور ہو یعنی اس کے آخری حرف پر زیر ہو)

رفعی حالت میں جمع سالم میں، تثنیہ کے لیے واحد میں ان کا اضافہ کیا جاتا ہے اور جمع کے لیے واحد میں ون کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً: المُسلِمُ سے المُسلِمَانِ اور المُسلِمُونَ

نصبی اور جری حالتوں میں، تثنیہ کے لیے واحد کے آخری حرف کے اعراب کو زبر سے تبدیل کر کے یا ساکن اور نون زیر کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً: المسلمَ یا المسلمِ سے المُسلِمَینِ۔ جبکہ جمع کے لیے واحد کے آخری حرف کے اعراب کو زیر میں تبدیل کر کے یا ساکن اور نون زبر کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً:المسلمَ یا المسلمِ سے المُسلِمِینَ۔

استادِ محترم نے ہمیں بتایا کہ جمع مکسر کے لیے کوئی خاص اصول نہیں ہے بلکہ وہ مختلف اوازن کے مطابق بنائے جاتے ہیں۔

۸ نومبر کو مرکبات کی دہرائی کے بعد استادِ محترم نے جمع کی دہرائی کروائی۔

مجرمٌ سے مجرمانِ اور مجرمونَ۔ مجرمٍ یا مجرمًا سے مجرمَینِ اور مجرمِینَ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں