ہمیں کالج میں پہلے دن (۱۱ اکتوبر ۲۰۱۲ کو) بتایا گیا کہ ہمیں عربی زبان و ادب پڑھائی جائے گی۔ اُستادِ محترم نے ہمیں بتایا کہ ہم علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی مطبوعہ اللسان العربي خرید لیں۔ پہلے دن ہمیں صرف حرکات کے متعلق بتایا گیا۔ عربی زبان میں ۶ طرح کی حرکات ہیں:
- زبر (جسے فتح کہتے ہیں اور یہ عموماً نصب کو ظاہر کرتا ہے)
- زیر (جسے کسرہ کہتے ہیں اور یہ عموماً جر کے اظہار کے لیے آتا ہے)
- پیش (جسے ضمہ کہتے ہیں اور یہ عموماً رفع ظاہر کرتا ہے)
- شد (جسے تشدد بھی کہتے ہیں)
- جزم (جسے سکون کہتے ہیں)
- تنوین (دو زبر‘ دو زیر یا دو پیش)
ہر قرآن پڑھنے والے عجمی مسلمان کو ان حرکات کا علم ہوتا ہے۔ تاہم‘ ان حرکات کی تفصیل دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر کسی شخص کو ان حرکات کا علم نہ ہو تو وہ نیچے دیئے گئے ڈبے میں سوال پوچھ سکتا ہے۔
نوٹ: اس وقت تو ہم ابھی بالکل ابتدائی طالب علم تھے تو ہمارے استادِ محترم نے ہمیں رفع، نصب اور جر والے معاملے میں ڈالنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں نے اپنے طور پر انٹرنیٹ سے یہ سیکھا کہ ضمہ = رفع، نصب = فتح اور جر = کسرہ۔ میں اس وقت تو یہی سمجھا تھا یہ ان کے متبادل نام ہیں لیکن ہمیشہ یہ خیال آتا تھا کہ زبر اور فتح کی تو حکمت سمجھ آ گئی کہ ایک فارسی ہے اور دوسرا عربی لفظ لیکن عربی میں ہی ایک حرکت کے دو ناموں کی حکمت سمجھ نہیں آئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایک حالت ہے اور دوسری حرکت۔ رفع، نصب اور جر اعرابی حالتیں ہیں کہ جن کا اظہار عموماً ضمہ، فتح اور کسرہ سے ہوتا ہے۔ اسی وضاحت کی غیر موجودگی کی وجہ سے تبصرے میں مجھے یہ سوال ملا جس کا جواب تبصرے میں دے دیا ہے۔ لیکن دوسرے قارئین کے لیے وہ جواب ادھر بھی شامل کر دیتا ہوں۔