پیر، 31 دسمبر، 2012

فعل

۱۳ اکتوبر کو ہمیں اسلامیات (لازمی) میں بھی عربی گرامر پڑھائی گئی۔

فعل اُس بامعنی لفظ کو کہتے ہیں جس میں کوئی زمانہ پایا جائے۔فعل کی تین اقسام ہیں:

  1. الفعل الماضي (فعل ماضی)
  2. الفعل المضارع (فعل حال اور فعل مستقبل)
  3. الفعل الأمر (حکم)

فعل چار طرح کے ہوتے ہیں:

  1. لازم: ایسا فعل جسے مفعول کی ضرورت نہ ہو۔
  2. متعددی: ایسا فعل جس کے لیے مفعول ضروری ہو۔
  3. معروف: ایسا فعل جس میں فاعل کا علم ہو۔
  4. مجہول: ایسا فعل جس میں فاعل کا علم نہ ہو۔

اتوار، 30 دسمبر، 2012

حروفِ استفہام

حروفِ استفہام میں ’’ما‘‘ اور ’’هل‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ہم درج کر چکے ہیں کہ ما کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ ھل کا مطلب بھی کیا ہی ہوتا ہے۔ اگرچہ اردو میں ان دونوں کا ترجمہ ’’کیا؟‘‘ ہی کیا جائے گا مگر ما کسی چیز کی حقیقت دریافت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ هل کسی معلومات کی صحت دریافت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی میں اس کو سمجھنا مشکل نہیں کیونکہ ما کا مطلب ’’what؟‘‘ اور ھل کا مطلب ’’is/are؟‘‘ ہے۔ اگر ہم نے کسی ایسی چیز کے متعلق پوچھنا ہو جس کا ہمیں علم نہیں مثلاً فلاں چیز کیا ہے تو پھر ہم ما استعمال کریں گے جبکہ اگر ہمیں کسی چیز کا پتا ہو یا اس پر شک ہو اور ہم نے تصدیق کرنی ہو مثلاً کیا یہ فلاں چیز یا شخص ہے تو پھر ہم ھل استعمال کریں گے۔ ما کے جواب میں صرف چیز کا بتایا جاتا ہے جبکہ ھل کا جواب نعم (ہاں) سے شروع ہے یا پھر لا (نہیں) سے شروع ہوتا ہے۔

ہفتہ، 29 دسمبر، 2012

اسم‘ فعل اور حرف میں فرق

۱۸ اکتوبر کو ہمیں اسم‘ فعل اور حرف میں فرق بتایا گیا۔
اسم اور فعل بامعنی الفاظ ہوتے ہیں جبکہ حرف کا اپنا کوئی معنی نہیں ہوتا۔ حرف مختلف اسماء یا فعلوں کے ساتھ مل کر مختلف معنی دیتا ہے۔ حروفِ اشارہ کا ہم ذکر چکے ہیں۔ حروفِ استفہام اور حروفِ جارہ کے متعلق بعد میں پڑھا جائے گا۔
اگرچہ اسم اور فعل دونوں بامعنی الفاظ ہیں مگر اسم میں کوئی زمانہ موجود نہیں ہوتا جبکہ فعل میں زمانہ موجود ہوتا ہے۔ فعل کی چار اقسام ہوتی ہیں جن کے متعلق بعد میں پڑھا جائے گا۔ ان چار اقسام کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

  1. فعل لازم
  2. فعل متعدی
  3. فعل معروف
  4. فعل مجہول

ذالک اور تلک

۱۳ اکتوبر کو ہمیں گھر کے کام میں پھر سے ۱۰ عربی سوالات و جوابات ملے مگر اس دفعہ اسمِ اشارہ ھذا اور ھذہ کی بجائے ذالک اور تلک تھا۔ ذالک مذکر کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ تلک مؤنث  کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ذالک اور تلک کا مطلب ’’وہ‘‘ ہوتا ہے۔ میں نے جو دس سوالات و جوابات بنائے، وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

جمعہ، 28 دسمبر، 2012

ھٰذا اور ھٰذِہٖ

۱۲ اکتوبر کو ہمیں گھر کے کام میں ۱۰ عربی سوالات و جوابات باستعمالِ ہذا و ہذہ ملے۔ ھٰذا مذکر (مرد) کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ ھٰذِہٖ مؤنث (عورت) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہذا اور ہذہ کا مطلب ’’یہ‘‘ ہوتا ہے اور ما کا مطلب ’’کیا‘‘ ہوتا ہے۔ میں نے جو سوالات و جوابات لکھے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

جمعرات، 27 دسمبر، 2012

اسم الإشارة

12 اکتوبر کو ہمیں اسم الاشارۃ کے متعلق پڑھایا گیا۔ اسم الاشارہ ایسے حروف کو کہتے ہیں جو کسی چیز یا شخص کی طرف اشارہ کریں۔ حروف‘ اسم اور فعل کا فرق بعد میں بتایا جائے گا۔
عربی کے مشہور چار اسمِ اشارہ مندرجہ ذیل ہیں۔

  1. هٰذا (ہذا)
  2. هٰذهٖ (ہذہٖ)
  3. ذالك (ذَالکَ)
  4. تلك (تِلکَ)

بدھ، 26 دسمبر، 2012

اجزائے کلام

اجزائے کلام کتنے ہیں؟

۱۲ اکتوبر کو ہمیں اجزائے کلام کے متعلق بتایا گیا۔ عربی میں تین اجزائے کلام ہیں:

  1. اسم
  2. فعل
  3. حرف

 

فعل کی تین اقسام ہیں:

  1. فعل ماضی
  2. فعل مضارع
  3. فعل امر

 

حرف کی تین اقسام ہیں:

  1. حروفِ جارہ
  2. حروفِ استفہام
  3. اسمِ اشارہ

منگل، 25 دسمبر، 2012

حرکات

ہمیں کالج میں پہلے دن (۱۱ اکتوبر ۲۰۱۲ کو) بتایا گیا کہ ہمیں عربی زبان و ادب پڑھائی جائے گی۔ اُستادِ محترم نے ہمیں بتایا کہ ہم علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی مطبوعہ اللسان العربي خرید لیں۔ پہلے دن ہمیں صرف حرکات کے متعلق بتایا گیا۔ عربی زبان میں ۶ طرح کی حرکات ہیں:

  1. زبر (جسے فتح کہتے ہیں اور یہ عموماً نصب کو ظاہر کرتا ہے)
  2. زیر (جسے کسرہ کہتے ہیں اور یہ عموماً جر کے اظہار کے لیے آتا ہے)
  3. پیش (جسے ضمہ کہتے ہیں اور یہ عموماً رفع ظاہر کرتا ہے)
  4. شد (جسے تشدد بھی کہتے ہیں)
  5. جزم (جسے سکون کہتے ہیں)
  6. تنوین (دو زبر‘ دو زیر یا دو پیش)

ہر قرآن پڑھنے والے عجمی مسلمان کو ان حرکات کا علم ہوتا ہے۔ تاہم‘ ان حرکات کی تفصیل دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر کسی شخص کو ان حرکات کا علم نہ ہو تو وہ نیچے دیئے گئے ڈبے میں سوال پوچھ سکتا ہے۔

نوٹ: اس وقت تو ہم ابھی بالکل ابتدائی طالب علم تھے تو ہمارے استادِ محترم نے ہمیں رفع، نصب اور جر والے معاملے میں ڈالنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں نے اپنے طور پر انٹرنیٹ سے یہ سیکھا کہ ضمہ = رفع، نصب = فتح اور جر = کسرہ۔ میں اس وقت تو یہی سمجھا تھا یہ ان کے متبادل نام ہیں لیکن ہمیشہ یہ خیال آتا تھا کہ زبر اور فتح کی تو حکمت سمجھ آ گئی کہ ایک فارسی ہے اور دوسرا عربی لفظ لیکن عربی میں ہی ایک حرکت کے دو ناموں کی حکمت سمجھ نہیں آئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایک حالت ہے اور دوسری حرکت۔ رفع، نصب اور جر اعرابی حالتیں ہیں کہ جن کا اظہار عموماً ضمہ، فتح اور کسرہ سے ہوتا ہے۔ اسی وضاحت کی غیر موجودگی کی وجہ سے تبصرے میں مجھے یہ سوال ملا جس کا جواب تبصرے میں دے دیا ہے۔ لیکن دوسرے قارئین کے لیے وہ جواب ادھر بھی شامل کر دیتا ہوں۔

رفع، نصب اور جر اعرابی حالتیں ہیں جنہیں اعراب بھی کہا جاتا ہے۔ اس حالت کو ہمیشہ ایک طرح سے ظاہر نہیں کیا جاتا۔ کبھی اس کا اظہار حرکتوں (ضمہ، فتح اور کسرہ) سے ہوتا ہے، کبھی اس کا اظہار حروف سے ہوتا ہے جیسے رفعی حالت کے لیے تثنیہ میں ان اور جمع میں ون لگتا ہے جبکہ نصبی اور جری حالت کے لیے تثنیہ اور جمع میں ین لگتا ہے۔ اور کبھی نصب کا اظہار فتح کی جگہ کسرہ سے اور کبھی جر کا اظہار کسرہ کی جگہ فتح سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب قواعد کے تحت ہوتا ہے۔ تاہم اس میں پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں۔